یہاں سب بکتا ہے


 

’’کرپشن فری پاکستان‘‘بہت ہی خوبصورت نعرہ ہے،اگر یہ نعرہ سچ ثابت ہوجائے تو پاکستان کے سب مسائل ہی حل ہوجائیں،ملک خوشحال ہوجائے،ہر طرف امن سلامتی،محبت کے پھول کھلنے لگیں،چونکہ جماعت اسلامی نے یہ نعرہ بلند کرکے ملک کے ہر فرد کے ضمیر کو جھنجوڑنے کی کوشش کی ہے،ایک ماہ تک جاری رہنے والی مہم فی الحال توموئثر ثابت نہیںہوسکی شاید کے مستقبل میں کچھ نتائج سامنے آجائیں۔فی الحال تو یہ نعرہ جماعت اسلامی کے کارکنوں کو فعال کرنے کا ہی سبب بنا ہے۔
ملک میں جب کرپشن کی بات آتی ہے تو ہرطرف کرپشن ہی کرپشن دکھائی دیتی ہے،گھر کے چوکیدار سے لے کر ملک کےسربراہ تک سبھی کرپٹ دکھائی دیتے ہیں،تھانے کے سنتری سے عدالت کے بڑے بڑے منصف اس گند میں لتھڑے نطر آتے ہیں۔مدرسے کے مولوی سے لیکر یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر کے جسموں سے بدعنوانی کی بدبو آتی ہے،غریب کی غربت،امیر کی امارت،سرمایہ دار کی عیاشی تک میں کرپشن چھپی ملتی ہے فرق صرف اتنا ہے کہ کوئی بڑا کرپٹ ہے تو کوئی چھوٹا۔یہاں دن کے اجالے میں پارسا دکھنے والے رات کے اندھیرے میں سب پارسائی بھول جاتے ہیں،باریش چہروں کے نیچے سود کی کمائی سے بھرے پیٹ،ظاہر کچھ،باطن کچھ۔کرپشن صرف پاکستان میں ہی نہیں ہوتی ہرجگہ، ہرملک میں ہوتی ہے،لیکن تکلیف دہ بات یہ ہے کہ اس گناہ کو جائز سمجھا جاتا ہے،اس پر فخر کیا جاتا ہے ۔
میرے ملک میں سب سے زیادہ کرپٹ سیاستدانوں کو سمجھا جاتا ہے،اس میں کوئی دو رائے بھی نہیں ہے کہ ہماری سیاست سب سے زیادہ کرپٹ ہے،کرپشن کی بنیاد بھی یہی ہیں،بازار حسن کے کوٹھے پر ناچنے والی طوائف اتنے گھنگروں اور کپڑے نہیں بدلتی جتنے یہ’’شریف‘‘نظر آنے والے عوامی نمائندے پارٹیاں بدلتے ہیں،ایک پارٹی سے من بھرا تو ’’عوامی مفاد‘‘میں دوسری میں چلے گئے،ایک کشتی ڈوبتی دیکھی تو دوسری میں چھلانگ لگا دی،یہ کھیل صرف ایک پارٹی تک محدود نہیں،یہ سب میں ہوا،سب کے ساتھ ہوا،یہاں کئی مسلم لیگیں بنی ہیں تو پیپلز پارٹی کے بھی ٹکڑے ہوئے ہیں،لبرل کے ساتھ مذہبی اور قدامت پسند جماعتیں بھی تقسیم ہوئی ہیں،ایم کیو ایم کے نئے جنم اور مصطفی کے ’’کمال‘‘پر حیرت زدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔سانپ کی بھدی جلد جتنی بار بھی اتر جائے رہتا سانپ ہی ہے،اس کو جتنا بھی دودھ پلایا جائے کاٹنا اس کی فطرت میں شامل ہے’’فطرت کھبی تبدیل نہیں ہوتی‘‘۔یہ سابقہ گناہوں کی نیت سے ضرور آئے ہیںلیکن نیت تو پہلے بھی کئی کرنے والوں نے کی ہے۔آفاق احمد اور عامر خان بھی یہی نعرہ بلند کیا تھا،یہاں اپوزیشن میں رہتے ہوئے سب گند صاف کرنے کے وعدے اور دعوے کرتے ہیںجب اپنی باری آتی ہے تو سب شتر مرغ کی طرح گردن ریت میں دبا لیتے ہیں،کبوتر کی طرح انکھیں موند لیتے ہیں
حیرت کی بات تو یہ ہے کہ احتساب کی باری آئی تو تو پانچ پانچ سالوں تک صدر رہنے والے بیمار پڑگئے ہیں،ایک کا دل اور کمر نیہں کام کرتی تو دوسرے نے دماغی حالت ٹھیک نہ ہونے کا سرٹیفکیٹ کٹوا لیا ہے۔
بلوچستان سے ’’را ‘‘کے حاضر سروس آفیسر کے پکڑے جانے پر فخر بھی کیا جارہا ہے اور’’ بتیسیاں ‘‘بھی نکالی جارہی ہیں،کل بھوشن یادیو کے اعترافی بیان کو بھی سنایا اور دکھایا جا رہا ہے،یہ کوئی نئی بات تو ہے نہیں اس پہلے بھی تو ایسا ہوا ہے،یہ ’’را‘‘اور بھارت سے پیار کرنیوالے تو کئی دہائیوں سے موجود ہیں،پہلے کونسی نیند کی گولیاں کھا کے سوئے ہوئے تھے سب؟الطاف تو 1992ء سے یہاں نہیں،اس کے سہولت کار ،چمچے چاٹے تو یہاں موجود ہیں ان پر کیوں ہاتھ نہیں ڈالا گیا،سچ بات تو یہ ہے ’’دبدبہ‘‘بنے رہنے کے چکر میں ہرچیز کو برداشت کیا جاتا رہا ،ملزموں کو محرم بنا کر پیش کیا جاتا رہا،وکیل،عدالت،قانون سب بکتے رہے،ان کے خلاف بنائی جانیوالی فائلیں بابائے قوم کی تصویر والے کاغذ کے ٹکڑوں کے نیچے سے نکل ہی نہیں پائیں’’غریب کو انصاف ملتا نہیں،امیر پیسے سے وکیل،جج،گواہ سب خرید لیتا ہے‘‘نہ جانے کتنے مقدمات مائوں کی گودیں اجاڑ گئے،سہاگنوں کے سر سے آنچل لے گئے،کتنے بچوں کو یتم کرگئے۔مظلوموں کے والدین فیصلے کے انتظار میں آنکھوں کی بینائی کھو بیٹھے،سہاگنیں سرخ جوڑے سے سفید کفن میں دفن ہوگئیں۔
سچ تو یہ ہے کہ
نصیحت روز بکتی ہے عقیدت روز بکتی ہے
تمھارے شہر میں لوگو!محبت روز بکتی ہے
امیر شہر کے ڈر کا ابھی محتاج ہے مذہب
ابھی ملا کے فتوئوں میں شریعت روز بکتی ہے
ہمارے خون کو بھی کسی دن بیچ ڈالے گا
خریداروں کے جھرمٹ میں عدالت روز بکتی ہے
نہ جانے لطف کیا ملتا ہے ان کو روز بکنے میں
طوائف کی طرح لوگو!قیادت روز بکتی ہے
کبھی مسجد کے منبر پر،کبھی ہجرے میں چھپ چھپ کے
میرے واعظ کے لہجے میں قیامت روز بکتی ہے
بڑی لاچار ہیںساقی جبینیں ان غریبوں کی
کہ مجبوری کی منڈی میںعبادت روز بکتی ہے
جب سب کچھ نہیں بکے گا تو کرپشن فری پاکستان بھی بن جائے گا اور امن بھی ہمارا مقدر ہو جائے گا۔